بانجھ پن نے ملتان کی خاتون کو بچہ اغواء کرنے پر مجبور کر دیا،پولیس نے گرفتار کر کے نومود بچہ بازیاب کروا لیا

یہ کہانی ہے ممتا کی تڑپ، ضمیر کی جنگ، اور اس نتیجے کی، جو تقدیر کے فیصلوں کو بدلنے کی کوشش کرنے والوں کو ہمیشہ یاد دلائے گا کہ ہر عمل کی ایک قیمت ہوتی ہے۔بانجھ پن نے شمسہ ندیم کے دل کے زخموں کو تازہ کر دیا۔ اس کے دل نے فیصلہ کر لیا—اگر قسمت نے اسے ماں بننے کا حق نہیں دیا، تو وہ خود اپنا حق چھین لے گی۔ لیکن کیا یہ فیصلہ اس کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گا، یا یہ ایک اور المیے کا آغاز ہو گا؟شمسہ ندیم، جو اپنی اولاد نہ ہونے کی محرومی سے تنگ آ چکی تھی، نے ایک نومولود بچے کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے نشتر ہسپتال سے عبد الستار کے بچے کو ایک چالاکی سے اغوا کیا، جس میں ایک پرائیویٹ ہسپتال کی ڈاکٹر کی شمولیت بھی شامل تھی، جو اس عمل کو جائز دکھانے کے لیے جھوٹی سرجری کروانے میں ملوث تھی۔ تاہم، پولیس نے جدید تکنیکی وسائل اور محنتی تحقیق سے بچے کو بحفاظت بازیاب کر لیا اور اغوا کار خاتون کو گرفتار کر لیا۔مورخہ 11 دسمبر 2024 کو شام 7 بجے کے قریب بچے کے والد عبد الستار نے پولیس کو اطلاع دی کہ ایک نامعلوم خاتون ان کے نومولود بچے اذان کو اغوا کر کے لے گئی ہے۔خاتون نے بچے کے والدین سے کہا کہ وہ بچے کو گود میں لینا چاہتی ہے اور بعد میں شوہر کو دکھانے کے بہانے موقع پاتے ہی بچہ لے کر فرار ہو گئی۔اطلاع ملتے ہی سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے بچے کی بازیابی اور ملزمہ کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔سٹی پولیس آفیسر صادق علی ڈوگر کی ہدایت پر ایس ایس پی آپریشنز کامران عامر خان کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی، جس میں ایس پی کینٹ جاوید طاہر مجید، اے ایس پی کینٹ ہالار خان چانڈیو، ایس ایچ او کینٹ ندیم صفدر، سب انسپکٹر محمد اکبر، پی آر او انسپکٹر عبد الخالق، سب انسپکٹر فیاض حسین اور دیگر افسران شامل تھے۔پولیس ٹیموں نے سی سی ٹی وی فوٹیج، سوشل میڈیا، اور تکنیکی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے خاتون اغوا کار کو تلاش کرنے کے لیے مربوط کوششیں شروع کیں۔ مسلسل محنت کے بعد خاتون شمسہ ندیم کو ٹریس کر کے گرفتار کر لیا گیا اور نومولود بچے کو بحفاظت بازیاب کر کرا لیا۔پولیس تھانہ کینٹ نے نشتر ہسپتال سے اغوا ہونے والے نومولود بچے کو 02 روز کے اندر بحفاظت بازیاب کر کے اغوا کار خاتون کو گرفتار کیا۔پولیس تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کی اغواء کاری کی منصوبہ بندی میں ایک پرائیویٹ ہسپتال کی ڈاکٹر بھی شامل ہے جس نے حقیقی بچہ ظاہر کرنے کے لیے پیسے لے کر جھوٹی سرجری کی تاکہ اغواء کی گئے بچے کو اغواء کار خاتون کا حقیقی بچہ ظاہر کیا جا سکے۔گرفتار خاتون نے اعتراف کیا کہ اس کے ہاں اولاد نہ ہونے کے باعث اس نے نومولود بچے کو گود لینے کے لیے اغوا کیا تھا۔ اغواء کاری کی منصوبہ بندی میں پرائیویٹ ہسپتال کی ڈاکٹر بھی شامل ہے جس نے حقیقی بچہ ظاہر کرنے کے لیے پیسے لے کر جھوٹی سرجری کی پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ منصوبہ بندی میں شامل ڈاکٹر فرار ہو گئی ہے جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر نے اپنی ٹیم کے ہمراہ بچہ گھر جا کر والدین کے حوالے کیا، بچے کی بازیابی پر والدین خوشی سے نہال ہو گئے اور پھولوں سے سی پی او ملتان اور پولیس ٹیموں کا استقبال کیا۔سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر نے بچہ گھر جا کر والدین کے حوالے کیا، بچے کی بازیابی پر والدین خوشی سے نہال ہو گئے اور پھولوں سے پولیس ٹیموں کا استقبال کیا اور کہا کہ ان کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں۔سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر نے اس کامیاب کارروائی پر پولیس ٹیم کو شاباش دی اور ان کے لیے نقد انعامات اور تعریفی سرٹیفکیٹس دیئے ۔وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مہناز خاکوانی اور ایم ایس نشتر ہسپتال ڈاکٹر زاہد نے کیس میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے پولیس سے مکمل تعاون کیا اور انہیں ملزمہ تک پہنچنے میں بھرپور معاونت فراہم کی۔ملتان پولیس نے اس کامیاب کارروائی سے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔یہ واقعہ انسانی جذبات، جرم، اور انصاف کے سفر کی ایک ایسی کہانی پیش کرتا ہے جو نہ صرف جذباتی ہے بلکہ معاشرتی مسائل کو بھی نمایاں کرتی ہے۔ اس میں ایک عورت کی ممتا کی خواہش اور جرم کے انتخاب نے کئی زندگیاں متاثر کیں،معاشرے میں قانون ہمیشہ غالب رہتا ہے، اور معصوم جانوں کی حفاظت کے لیے پولیس اور معاشرہ ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں۔جرم کی کوئی معافی نہیں: خواہ جذبات کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، غلط راستہ اختیار کرنے کا انجام ہمیشہ تباہ کن ہوتا ہے۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.