امریکہ ہمیں ہماری اوقات دکھا رہا ہے،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی اپیل مسترد ہونے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا بیان۔

‎اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز اسحاق خان نے جمعے کے روز ایک سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ “امریکہ ہمیں ہماری اوقات دکھا رہا ہے۔” یہ تب ہوا جب انھیں مطلع کیا گیا کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا معاف کرنے کی اپیل مسترد کر دی ہے۔ یہ سماعت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کے حوالے سے تھی۔

‎سماعت میں ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ان کے امریکی وکیل کلائیو سمتھ ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

‎ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا پس منظر
‎مارچ 2003 میں پاکستانی نیوروسائنسدان ڈاکٹر عافیہ کراچی سے لاپتہ ہوئیں۔ 2010 میں ایک امریکی عدالت نے انھیں افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی۔ امریکی محکمہ انصاف نے انھیں القاعدہ سے منسلک قرار دیا تھا۔ تاہم، ان کے حامی اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی رہائی کے لیے تحریک چلا رہے ہیں، جس کی قیادت ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔

‎کیس کی سماعت اور عدالتی بیانات
‎جسٹس اعجاز اسحاق خان نے امریکی صدر کی جانب سے عافیہ صدیقی کی اپیل مسترد کرنے پر کہا، “امریکہ نے اپنے بیٹے کی سزا معاف کر دی، لیکن ہمارے قیدی کو رہا نہیں کیا۔” یاد رہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے دو فوجداری مقدمات میں غیر مشروط معافی دے دی تھی۔

‎سماعت کے دوران وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے غیر ملکی دورو کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی گئیں۔ مزید برآں، امریکہ میں پاکستانی سفیر کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق ملاقاتوں میں شرکت نہ کرنے پر جواب طلب کیا گیا۔ وزارت خارجہ نے عدالتی سوالات پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

‎ڈاکٹر عافیہ پر الزامات

‎2008 میں افغان پولیس نے ڈاکٹر عافیہ کو کیمیائی اجزا اور نیویارک پر حملے سے متعلق تحریری مواد رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ حکام کے مطابق، گرفتاری کے دوران ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر گولیاں چلائیں، تاہم کوئی زخمی نہیں ہوا۔ ان کے وکلا کا موقف تھا کہ یہ عمل بدحواسی میں ہوا اور اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔

‎امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو قتل کی کوشش اور دیگر الزامات کے تحت مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی۔ فیصلے میں امریکی اہلکاروں اور فوجیوں پر حملے اور فائرنگ کے مختلف الزامات شامل تھے، جن کی مجموعی سزا کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔

‎ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک اہم انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کی سزا کو کئی حلقے غیرمنصفانہ قرار دیتے ہیں، اور ان کی وطن واپسی کے لیے حکومتی سطح پر مزید مضبوط اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔