پانچ سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا ملزم پولیس مقابلے میں مارا گیا

پانچ سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا ملزم پولیس مقابلے میں مارا گیا،دنیا بھر میں چھوٹے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں اور بچوں کی حفاظت میں غفلت برتنے پر والدین اور انکے سرپرست کو سخت سزائیں بھی سنائی جاتی ہیں،مشرقی ممالک میں اس حوالے سے ہر شخص باشعور ہے کہ چھوٹے بچوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچانا،مگر بات کریں اگر پاکستان کی تو یہاں ایسا ماحول نہیں ہے گھر والوں کی چھوٹی سی غفلت کے باعث آئے روز کمسن،معصوم پھول جیسے بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کر کے انہیں قتل کر دیا جاتا ہے،پاکستان کے قانون نادفذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ ایسے درندہ صفت مجرموں کو فوری طور پر سخت سے سخت سزائیں سنائی جائیں اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے،اسی کے ساتھ ساتھ میں معاشرتی شعورکو بھی بڑھانا چاہیے۔واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ سات جنوری 2024 کو پانچ سالہ بچی فاطمہ کے ماموں محمد وسیم نے پولیس کو بتایا کہ میری ہمشیرہ نے پریشانی حالت میں مجھے فون کیا اور کہا فاطمہ کھیلتے ہوئے گھر سے باہر نکلی اور اب مل نہیں رہی بہت دیر تک ہم دونوں بہن بھائی اسے ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہیں ملی کچھ۔اپنے رشتہ داروں کو ساتھ لیکر جب اشفاق راں کے باغ کے پاس پہنچے تو ایک بچی کی لاش آم کے درخت کے اوپر پڑی ہوئی تھی ہم نے قریب جا کر شناخت کی تو وہ میری بھانچی کی لاش تھی جسے کسی نے قتل کر دیا ہے،پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کر کے مزید کارروائی کا آغاز کر دیا،پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ملزم کو آخر کار گرفتار کر لیا۔دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ بچی گم ہو گئی تھی اور اپنی ماں کو ڈھونڈتے ہوئے درندہ صفت ملزم کے پاس جا پہنچی تو اس نے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا اور اپنا جرم چھپانے کے لیے درندہ صفت عمران نے بچی کو موت کے گھاٹ اتار دیا اورلاش کو درخت کے اوپر باغ میں لٹکا دیا تاکہ بچی کی موت قتل نا لگے۔پولیس نے آس پاس درجنوں لوگوں کو حراست میں لیا اور تفتیش کی۔بچی کے قاتل عمران سے جب تفتیش کی تو اس نے قتل کا اعتراف کر لیا پولیس نے تین بار کپڑوں اور دیگر چیزوں کا ڈی این اے کروایا جو کہ پازیٹیو آیا جس سے تصدیق ہو گئی کہ اسی نے بچی کو قتل کیا ہے۔پنجاب فرانزک لیب ڈی این اے کے حوالے سے دنیا میں دوسرنمبر پر ہے جبکہ پہلے نمبر پر امریکہ کی لیب ہے۔پولیس نے تحقیق اور تفتیش کا کوئی طریقہ کار نہیں چھوڑا پولیس نے روائیتی پولیسنگ کی
‎بھیس بدل کربھی علاقے میں جاتے رہے اور ملزم کو گرفتار لر لیا۔
ایک روز رات 7 بجے کے قریب انچارج انوسٹیگیشن قادر پورراں عاصم محمود دیگر اہلکاروں کے ہمراہ ملزم محمد عمران کو پولیس کی جانب سے برآمدگی کے بعد واپس لایا جا رہا تھا،جب بنگل والا موڑ پہنچے تو 03 نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے کی غرض سے پولیس پر فائرنگ کر دی۔پولیس نے بھی جوابی فائرنگ کی، فائرنگ کا تبادلہ کافی دیر تک جاری رہا۔پولیس مقابلہ کی اطلاع پرایس ایچ او تھانہ قادر پورراں شاہد اسحاق مزید نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچےاس کے علاؤہ انچارج سی آئی اے گلگشت ڈویژن شوکت کمانڈو اور ان کی ٹیم موقع پر پہنچ گئے۔حملہ آور ملزمان کی فائرنگ سے زیر حراست پولیس ملزم عمران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا۔جبکہ حملہ آور ملزمان اس دوران فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس طرح کی معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کم کیسے کر سکتے ہیں۔بنیادی تعلیم اور شعور کو پروان چڑھا کر ہی معاشرے سے ایسی برائیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔قوانین میں ترمیم کر کے ایسی سخت سزائیں دی جائیں اس طرح کے ملزمان کو تاکہ نشان عبرت بنایا جا سکے ایسے سنگین جرام کرنے والوں کو۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.